Orhan

Add To collaction

غروب موحببت

قدسیہ اکثر عفان کو مذاق میں ”ابا جان“ کہتی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بالکل ”ابا“ کی طرح ہم دونوں کا خیال رکھتا ہے۔
”لیکن مجھے کوئی شوق نہیں تم دونوں کو اپنی بیٹیاں بنانے کا“ عفان قدسیہ کے اس طرح کہنے سے بہت چڑتا تھا۔
”لیکن تمہیں ابا جان بننے کا بہت شوق ہے نا… ابا لوگوں کی طرح ہی ری ایکٹ کرتے ہو۔“
”اچھا… لیکن ابا لوگوں کی طرح میں نے تمہیں کبھی مارا تو نہیں… نہ کبھی ڈانٹا۔

قدسیہ ہنسنے لگی۔
”میرا خیال ہے مجھے یہ دونوں کام فوراً کر لینے چاہئیں۔“
”یعنی تم مان گئے کہ تم ابا جی ہو…؟“
”اگر تمہیں میں۔ ابا جی کی صورت میں ہی اچھا لگتا ہوں تو یہی سہی… اتنی جوان لڑکیوں کا باپ… آہ… کیسا وقت آ گیا ہے۔ دونوں باپ بیٹی ایک ہی کالج میں پڑھ رہے ہیں…“
قدسیہ کی ہنسی کا فوارہ پھوٹا وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی قابو کرنے لگی۔

عفان چڑ گیا… ”بند کرو ایسے ہنسنا… تم نے تو میرا مذاق ہی بنا دیا ہے…“
قدسیہ انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتی،فرضی مونچھوں کو تاؤ دیتی اور ڈرنے کی اداکاری کرتی اور پھر سے ہنسنے لگتی۔
”اگر تم نے ہنسنا بند نہیں کیا تو…“
”تو…؟“ ہنسی روک کر قدسیہ نے پوچھا اور پھر سے لوٹ پھوٹ ہونے لگی،جو ہاتھ قدسیہ نے منہ پر رکھا تھا وہ عفان نے پکڑ لیا اور اسے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر زور سے دبا دیا،قدسیہ ایک دم چپ کر گئی۔

”اب ہنسو…“ ہنسو نا اب…“ اب عفان لطف اندوز ہو رہا تھا… پھر اس نے خود ہی اس کا ہاتھ چھو دیا۔
”ایسا دوبارہ بھی ہو سکتا ہے… یاد رکھنا“ ہونٹوں پر آئی مسکراہٹ وہ چھپانے لگا… قدسیہ پر گلابی رنگ آکر گزر گیا۔
مجھے کبھی قدسیہ سے حسد نہیں ہوا۔ اس کے پاس کچھ ایسا تھا ہی نہیں کہ میں حسد کرتی… لیکن اس دن میں نے اس سے حسد کیا… بہت کیا… وہ اس کی پہلے دوست بنی تھی بس یہی اس کا پلس پوائنٹ تھا… یہ دوستی ہی ہوتی تو سب ٹھیک تھا… دوستی کے اس انداز کے جھکاؤ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن صرف دوستی پر…

”یہ دیکھو یہ وہ جگہ ہے حوریہ جہاں قدسیہ کالج کے پہلے دن رونی صورت لئے کھڑی تھی۔

عفان نے کوریڈور کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے اس طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ کہاں کھڑی تھی۔
”اس وقت اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے گی اور میں اس طرف بیٹھا تھا“ اس نے دوسرے کونے کی طرف اشارہ کیا۔
”میری قدسیہ پر نظر پڑی اور مجھے بے تحاشا ہنسی آئی میں نے سوچا یہ اب گئی کہ اب گئی“ عفان ہنسنے لگا آج قدسیہ کالج نہیں آئی تھی اور وہ شاید اسے یاد کر رہا تھا۔

”اور جب تم نے مجھے دیکھا تب…؟“
”تب…؟ عفان مسکرایا“ تمہیں دیکھ کر سوچنا نہیں پڑتا،صرف دیکھنا،دیکھتے رہنا ہی کافی ہوتا ہے۔“
”تو تم نے پھر یہی کیا؟ مجھے اپنی تعریف بہت اچھی لگی کیا؟“
”دیکھا اور دیکھتے رہے“
نہیں… میں نے دیکھا اور سوچا کہ اتنا بھی کیا پیارا ہونا تھوڑا کم ہونا چاہئے… تمہیں تھوڑا کم پیارا ہونا چاہئے تھا۔

”اگر کوئی طریقہ ہے تو مجھے بتاؤ میں کم پیاری ہو جاتی ہوں۔“ اس کیلئے میں اپنی خوبصورتی کم کرنے کیلئے تیار تھی۔
وہ دل کھول کر ہنسا… ایسا طریقہ ہو بھی تو مت آزمانا۔
”میں پاگل ہوں تم مت ہونا“
میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ اسے پہلی بار دیکھ کر مجھے کیسا لگا لیکن میں نے اس بات کو کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھا۔
ہزار کوشش کے باوجود میرا اب پڑھنے میں دل نہیں لگ رہا تھا اگر عفان اتنی مدد نہ کرتا تو میں بالکل ہی زیرو ہو جاتی،قدسیہ البتہ پہلے کی طرح ہی پڑھنے میں تیز تھی،معلوم نہیں وہ عفان کی موجودگی میں صرف پڑھ کیسے لیتی تھی۔

میں نے خود پر زیادہ توجہ دینی شروع کر دی،پڑھائی کے علاوہ بھی میں عفان کو فون کر لیتی،قدسیہ سے زیادہ ہم دونوں کی گپ شپ ہونے لگی تھی،جس دن میں عفان کو فون نہ کرتی وہ مجھے کر لیتا تھا… دوستی نام کی جو چیز تھی میں اب اس سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
میں کوشش کرتی تھی کہ میری کوئی بھی بات،اس کی اس لسٹ میں نہ آئے جس میں اس کے ناپسندیدہ لوگوں کے نام درج ہیں،وہ بتاتا نہیں تھا مگر ظاہر ہو جاتا تھا کہ اسے کیا کیا ناپسند ہے… جیسے اسے لڑکوں کے شانوں پر بے تکلفی سے ہاتھ مارنے والیاں لڑکیاں پسند نہیں تھیں… اور ایسی لڑکیاں بھی جو لڑکوں کے ساتھ جڑ کر چلتی ہیں… یہ بات میں نے جان لی اور یہ بات بھی کہ وہ قدسیہ سے اور ہی انداز سے متاثر تھا جیسے مقدس لوگوں سے ہوا جاتا ہے… قدسیہ اس کیلئے ایک مقدس ہستی تھی،اب اس مقدس ہستی کا اس کے دل میں کیا مقام تھا یہ وہی جانتا تھا پر مجھے اس طرح عفان کا قدسیہ کیلئے مفید ہونا پسند نہیں تھا۔

   1
0 Comments